Urdu Story 1

Urdu Kahani - اردو کہانی


دل جب منافقت سے بھر جائیں تو انکھیں اندھی، کان بہرےاور زبان گونگی ہو جاتی ہے۔


شروعات کہاں سے کروں ،مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آتا ۔شروعات کہاں سے کروں۔ امثال نے اپنے شوہر کی طرف دیکھتے ہوئے مشورہ لینے والی نگاہ اس پر اٹکا دی۔ میں کیا کہہ سکتا ہوں۔ عارف نے کچھ الجھتے ہوئے اس کی طرف دیکھا ۔ تم ویلفیر کا کوئی ادارہ اکیلے تو چلا نہیں سکتی ۔ میرا نہیں خیال کہ کوئی اس قسم کا ادارہ پیسوں کے بغیر چلے گا ۔ سوچوں ایک کمرہ یا ذیادہ چاہیے ۔جہاں لوگ آ کر اپنے مسلے بیان کریں ۔ امثال نے گھورتے ہوئے کہا۔ تمہارا مطلب ہے میں ویلفیر کا کام ہی نہ کروں۔

عارف نے اس کی طرف سے نگاہ ہٹا دی۔ مجھے جو لگتا تھا میں نے کہہ دیا۔ اب تم جانو اور تمہارا کام امثال ۔ مجھے یہ ڈیل کے پیپر دیکھنے دو پلیز پہلے ہی رات کے دو بج رہے ہیں ۔ عارف نے نگاہ سرسری گھڑی پر ڈالی۔امثال نے گھڑی دیکھتے ہی سوچا ۔ آج کا ماسک لگانا تو میں بھول ہی گئی پھر وہ آئینہ کے سامنے جا کر اپنے چہرے کو دیکھنے لگی۔ چالیس سال کی امثال کا چہرہ ابھی بھی کافی جوان اور خوبصورت تھا۔ وہ خود کو دیکھ کر مسکرائی۔ پھر ماسک لگانے لگی۔دل ہی دل میں اپنے ویلفیر کے ادارے سے متعلق سوچ رہی تھی۔ ہم پوری پوری کوشش کریں گئے کہ غریبوں کو ان کا حق ملے ۔ نیکی بھی تو لازمی ہے نا۔

آمنہ نے کپڑے مشین میں ڈالے ہی تھے کہ شیزاد نے پاوڈر کا ڈبہ کھول کر سارا پاوڈر زمین پھینک دیا تھا۔ اسے سدرہ کے چلانے کی آواز آئی امی۔امی۔ شیزاد کو دیکھیں ۔ پاوڈر ، پاوڈر ۔ آمنہ نے اپنا کام چھوڑا اور فوراً سے بچوں کے کمرے کا رُخ کیا۔ آمنہ نے شیزاد کو دیکھا جو پورا پاوڈر سے نہایا ہوا لگ رہا تھا۔ اس کے اردگرد پاوڈر ہی پاودر تھا۔ آمنہ نے گہری سانس لی ۔ سدرہ بیٹا جا کر جھاڑو لا دیں ، مجھے یہ صاف کرنا ہے۔ آمنہ نے ہلکے سے شیزاد کو جھاڑا تا کہ اس پر جما ہوا پاوڈر نیچے اُتر جائے۔یہ کیا کیا ؟آپ نے ۔ شیزاد نے مما کا سوال سن کر ہنسنا شروع کر دیا ۔ چار سالہ شیزاد روز اسی قسم کے کارنامے کرتا رہتا تھا۔آمنہ بہت تحمل سے بچوں سے پیش آتی تھی۔ سات سال کی سدرہ نے مما سے کہا مما آپ چھوڑ دیں نا ۔ ابھی وہ کام والی آنٹی ذبیدہ آتی ہی ہوں گی ۔ پاوڈر صاف کر لیں گی۔ آمنہ نے مسکراتے ہوئے سدرہ سے کہا۔ بیٹا کسی پر ذیادہ بوجھ نہیں ڈالتے۔ قیامت کے دن ہمارے ہر عمل کی پوچھ ہو گی۔ کسی کے ساتھ کی گئی اچھا ئی اور برائی دونوں سامنے آ جائیں گی۔سدرہ نےکہا مما اللہ تعالیٰ ناراض ہوں گئے اگر ہم پاوڈر آنٹی ذبیدہ سے صاف کروائیں ۔ آمنہ نے مسکرا کر کہا ۔ نہیں بیٹا ۔ اللہ تعالیٰ خوش ہوں گئے اگر ہم اس کے کسی بندے پر ضرورت سے ذیادہ بوجھ نہ ڈالیں ۔ ایسے لوگ جن پررب نے ہمیں اختیار دیا ہو ۔ان کے ساتھ جہاں تک ممکن ہو بھلائی کرنی چاہیے کہ۔سب سے ذیادہ بااختیار تو اللہ ہے۔ وہی ہے جو ہمیں اختیار دیتا ہے۔ جب ہم کمزورں پر رحم کرتے ہیں تو رب بھی ہم پر رحم کرئے گا اور کرتا ہے۔ پاوڈر صاف ہو چکا تھا ۔ آمنہ نے کپڑے دھونے شروع کیے۔ 

امثال نے ہادی کو ڈانٹتے ہوئے کہا۔ کیا حال بنایا ہوا ہے کمرے کا۔ مائی گاڈ۔ ہادی نے افسردگی سے کہا۔ رات کو میں لڈومیں ہار گیا تو میں نے گوٹیاں پھینک دیں ۔پھر مہدی کیرم میں ہار گیا تو اس نے گوٹیاں پھینک دیں ۔ یہ تو پھر چلتا ہے نا موم۔ امثال نے غصے سے کہا۔ کیا چلتا ہے۔ اپنی الماری کے دروازے بند کر کے رکھا کرو۔ ابھی ذبیدہ آتی ہی ہو گی۔ ہادی نے مسکراتے ہوئے کہا۔ موم میری الماری میں کون سا خزانہ ہے جو وہ لوٹ کر لے جائے گی۔ 

امثال نے غصے سے کہا۔ ایک شرٹ یا نکر بھی بگل میں دبا کر لے گئی نا تو سمجھو پانچ چھ سو تو گئے۔بارہ سالہ ہادی مسکرایا۔ اگر آپ کو وہ اتنی نا پسند ہے تو اسے کام پر کیوں رکھا ہے۔ کپڑے وہ دھوتی ہے ۔ صفائی وہ کرتی ہے۔ برتن وہ دھوتی ہے۔ بگل میں شرٹ لے کر اتنے کام کیسے کرئے گئ ۔ گرِ نہیں جائے گا نکر یا شرٹ ۔ موم آپ بھی نا۔ امثال نے گھورتے ہوئے ہادی سے کہا۔ اپنی الماری کا دروازہ بن کر کے لاک لگایا کرو۔ جیسا کہا ہے ویسا کرو۔ مہدی کہاں ہے۔ ہادی نے مسکراتے ہوئے واش روم کی طرف دیکھا۔

ذبیدہ نے ڈور بیل دی ۔ معمول کی طرح وہ اور اس کا بیٹا دروازے پر کھڑے تھے۔ ابھی اس نے دوسری بیل دی ہی تھی کہ امثال نے دروازہ کھولا۔ آو ۔ آو۔ ذبیدہ کل چھٹی کیوں کی تھی۔ یہ کوئی طریقہ نہیں ہے۔ پہلے بتا رہی ہوں ۔ اگر اس ماہ میں تمہاری ایک چھٹی اور ہوئی تو میں تمہیں ہٹا دوں گی۔ ذبیدہ نے نظریں نیچے کرتے ہوئے کہا۔ جی باجی۔ فیضان روز کی طرح اپنی شرٹ کا بٹن چوس رہا تھا۔ تین سال کا فیصان دوازے کے ساتھ کی دیوار سے لگ کر بیٹھ جاتا ۔ زبیدہ دو گھنٹے اس گھر میں کام کرتی پھر۔ آمنہ کے گھر ۔ امثال نے ذبیدہ کے پاس آتے ہوئے غصے سے کہا۔ذبیدہ باتھ روم آج صاف کرنے کے بعد مجھے آ کر بتانا۔ پرسوں بھی تمہارے جانے کے بعد میں واش روم گئی تم بیسن کے نیچے والی جگہ چھوڑ دیتی ہو۔ واش روم بلکل صاف ہونے چاہیں ۔ سمجھی ۔ ذبیدہ نے اپنے اپنی قمیض کے اگلے اور پچھلے دامن کو آپس میں گرا لگائی۔جی جی باجی کر دوں کی تو بتا دوں گی۔ جی۔

آمنہ کپڑے دھو چکی تھی وہ پنکھے صاف کر رہی تھی۔ کہ ذبیدہ آ چکی تھی ۔ سدرہ نے دروازہ کھولا ۔ اسلام علیکم باجی۔آمنہ نے مسکرا کر کہا واعلیکم اسلام ۔ خیریت تو ہے کل کیوں نہیں آئی ۔ ذبیدہ نے بُرا سا منہ بناتے ہوئے کہا۔ وہ باجی میرے میاں کو کل گاڑی نے ٹکر مار دی۔ آمنہ نے افسوس سے کہا۔ اب کیسے ہیں تمہارے۔۔۔۔ذبیدہ نے بات کاٹ کر کہا۔ باجی ٹھیک ہے پر سات سو روپیے لگ گئے ۔بیٹھے بٹھائے مصیبت آ گئی ۔ ابھی کرایہ کے جو پیسے رکھے تھے وہ لگ گئے۔آمنہ نے تسلی دیتے ہوئے کہا۔ اللہ بہتر کرئے گا۔ فکر نہ کرو۔ ذبیدہ نے رونی سی صورت بناتے ہوئے کہا۔ پتہ نہیں سارے دُکھ ہم غریبوں کے لیے ہی ہوتے ہیں ۔ وہ صفائی کر کے جانے لگی تو آمنہ نے اس کے ہاتھ میں دو سو روپے دیتے ہویے کہا۔یہ رکھ لو۔ ذبیدہ نے شکریہ بھری نظروں سے آمنہ کو دیکھا۔ جو اکثر اس کی مدد کرتی رہتی تھی۔ اللہ بہت دے باجی ۔ ذبیدہ نے اپنے دوپٹہ کے کونے میں دو سو روپے باندھے اور چلی گئی۔

امثال کے گھر آ ج پارٹی تھی۔ سب وہاں موجود تھے ۔ ایک ہی اپارٹمنٹ میں ہونے کی وجہ سے آمنہ سے بھی امثال کی اچھی بات جیت تھی۔ سب دوست جب چکی تو امثال نے اپنی بات رکھی۔ دراصل میں ایک ویلفیر ادارہ بننا چاہ رہی ہوں ۔ جہاں غریبوں کی مدد کی جا سکے۔ لوگوں کو ان کا جائز حق مل سکے۔آپ لوگوں میں سے جو بھی اس سلسلے میں میرے ساتھ آنا چاہے ۔ ہمیں مالی اور افرادی مدد کی ضرورت ہو گی۔ یہ کار خیر ہے ۔ آپ کا کیا خیال ہے۔ آمنہ نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔ میرے لیے تو بہت مشکل ہو گا۔ ہم لوگوں نے ابھی گھر لیا ہے ۔ اس لیےقرضہ کی وجہ سے کوئی مالی مدد نہیں کر سکتی ۔ چھوٹے بچوں کی وجہ سے میں سارا دن ہی مصروف رہتی ہوں تو افرادی مدد کرنے کی بھی کوئی صورت نہیں ہے۔ اس نے افسردگی سے اپنا جملہ مکمل کیا۔ امثال نے مسکراتے ہوئے کہا۔ کوئی بات نہیں ۔ یہاں اور بھی بہت لوگ ہیں ۔ جنہیں دنیا سے ذیادہ آخرت کی فکر ہے۔ 

آمنہ کے دل میں امثال کی بات چبھی مگر اس نے افسوس سے کہا۔ جب اللہ توفیق دے گا تو میں بھی آپ کے ساتھ اس کار خیر کا حصہ ضرور بنوں گی۔امثال کی پارٹی ختم ہوئی تو اس کی دو دوستوں نے اسے مالی اور ایک دوست نے ساتھ کام کرنے کی آفر کی ۔ امثال بہت خوش تھی۔ ذبیدہ نے اجاذت چاہی ۔ فیٖضان ڈرائنگ روم سے باہر بیگمات کی جوتوں کو سیدھا کر رہا تھا۔ امثال نے غصے سے ذبیدہ سے کہا۔ تمہیں پتہ تو ہے کہ ابھی کچن میں بہت کام ہو گا۔ اور ہٹاو اُسے یہاں سے کسی کا جوتا ہی نہ خراب کر دے۔ فیضان جوتے پر لگے موتی کو گول گول گما کر دیکھ رہا تھا۔ذبیدہ نے رونی سی صورت بنا کر کہا۔ باجی آپ نے کہا تھا ۔ چار بجے تک ۔ میری چھوٹی بچی کی طبعیت بہت خراب ہے ۔ امثال نے ہنستے ہوئے کہا۔ چھ سات بچے ہوں گئے توکوئی نہ کوئی تو ہر روز ہی بیمار ہو گا۔ کوئی اور بات سوچو۔ ذٖبیدہ نے کچھ اور بولنے کی بجائے میز سے خالی برتن اُٹھانے میں عافیت جانی ۔ 

عفت نے ہنستے ہوئے کہا۔ تم نے تو اس بے چاری کو دوسری بات بھی نہیں کرنے دی۔ امثال نے قہقہ لگاتے ہوئے کہا۔ یار دو سو روپے دوں گی اسے ۔ اس پارٹی میں کام کرنے کے ۔ اب یہ چاہ رہی ہے کہ برتن کل تک پڑھے رہیں ۔ تو یہ تو غلط ہے۔ آمنہ نے دھیرے سے کہا۔ اس کی چھوٹی بیٹی صرف سات ماہ کی ہے۔ امثال نے ہنستے ہوئے کہا اور اس سے بڑی والی دو سال کی ہے۔ اب ہر سال بعد بچہ پیدا کرئے گی تو یہی ہو گا نا۔ ان لوگوں کو صرف بچے پیدا کرنا ہوتے ہیں ۔بس عفت نے مسکراتے ہوئے کہا۔ اس کی گیارہ سال کی بیٹی میری ایک جاننے والی کے گھر ہوتی ہے۔ پانچ ہزار دے رہی ہے وہ اسے۔ بچے ان لوگوں کی کمائی کا ذریعہ ہوتے ہیں ۔ ذرا سے بڑے ہوئے تو پیسہ کمانا شروع۔ قرآن تک نہیں آتا ان لوگوں کو۔ چھ بچے ہیں اس عورت کے ۔ عفت ذبیدہ پر تبصرہ کر رہی تھی۔ سب بغور کہانی میں دلچسپی لے رہی تھیں ۔ آمنہ کے چہرے پر افسوس کے جذبات تھے۔ دوسرے دن اس نے ذبیدہ سے پوچھا۔ ذبیدہ تم قرآن پڑھی ہوئی ہو۔ ذبیدہ نے افسوس کرتے ہوئے کہا۔ نہیں باجی۔ تمہارے بچوں میں سے کوئی بچہ پڑھ رہا ہے۔ کہاں باجی۔ آمنہ نے ایک آہ بھری ۔ تمہاری جو سات سال کی بیٹی ہے ۔ وہ سارا دن گھر ہی ہوتی ہے۔ ذبیدہ نے آمنہ کی طرف دیکھا۔ اور بولی جی باجی۔ آمنہ نے پھر کچھ سوچتے ہوئے کہا۔ تم اسے ساتھ لے آیا کرو میں اسے قرآن پڑھاوں گی۔ ذبیدہ نے حیرت سے دیکھا۔ جی باجی۔ 

آمنہ نے دل ہی دل میں سوچا شروعات تو کی جا سکتی ہے نا۔ میں شرو عات یہاں سے کروں گی۔ دوسرے دن سے علیزہ جو ذبیدہ کی بیٹی تھی روز قرآن پڑھنے کے لیے آمنہ کے پاس آنے لگی۔ ابھی امثال کی ویلفیر سوسائٹی کا آغاز نہیں ہوا تھا۔ کہ امثال کا چالیس ہزار کا پرائز بوند نکل آیا ۔ اتنے ذیادہ پیسے نکلے ہیں میرے مجھے پاکستان ٹور کرنا ہے وہ اپنے شوہر سے ضد کر رہی تھی۔ عارف نے اسے سمجھانے کے انداز میں کہا دیکھو۔ فضول خرچی نہ کرو۔ کل بچوں کی اچھی تعلیم کے لیے روپے ضرورت پڑھیں گئے۔ تمہاری ویلفیر سوسائٹی کا کیا ہوا ۔ امثال نے غصے سے کہا۔ مجھے کوئی ویلفیر سوسائٹی نہیں بنانی ۔ مجھے پا کستان ٹور پر جانا ہے ۔ اس کے بعد جو پیسے بچ جائیں گئے۔ ان سے جم کھولوں گی تاکہ میرے جیسی خوبصورت عورتیں مذید خوبصورت نظر آنے کے لیے میرے پاس آئیں۔عارف نے حیرت سے کہا۔ تو وہ ویلفیر سوسائٹی وہ بنانے کا تم کیوں سوچ رہی تھی۔ امثال نے غصے سے کہا۔ آپ پاکستان ٹور کے لیے میرے ساتھ چل رہے ہیں یا نہیں ۔ عارف نے منہ بناتے ہوئے کہا۔ تمہارے ساتھ نہ چل کے تم سے دشمنی مول لینی ہے۔ امثال نے ایک قہقہ لگایا۔ تو بتائیں نا شروعات کہاں سے کروں ۔ مجھے تو سمجھ نہیں آتا شروعات کہاں سے کروں۔